Image Credit: Google

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک ادیب جن سے میری کافی شناسائی تھی؛ وہ مجھ سے ملنے آئے - ھم ادب اور تخلیق کے حوالے سے محو گفتگو تھے کہ انہوں نے اچانک مجھ سے سوال کیا کہ بخاری! تم کیسے لکھتے ھو؟ میں نے کہا یہ کونسا مشکل کام ھے- پہلے میں سوچتا ھوں پھر اسے کاغذ پر منتقل کر دیتا ھوں-

کہنے لگے: میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کیسے سوچتے ھو؟ میں نے آنکھیں بند کیں اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا-کہنے لگے : کیا ھو گیا ھے تمہیں؟ میں نے کہا: میں آپ کو بتا رھا تھا کہ میں ایسے سوچتا ھوں- صاحب کو تو غصہ آگیا- کہنے لگے : تو تو بڑا غبی نکلا- میں پوچھ رھا ھوں کہ تحریر سوچنے کے لئے تمہیں کونسی جگہ اور وقت اچھا لگتا ھے جہاں تم تحر یر کے تانے بانے جوڑنے میں آسانی ھوتی ھے- میں نے کہا: میں مسجد میں سوچنے کا عمل تیز کر دیتا ھوں- کہنے لگے اس کا کیا فائدہ؟ میں نے کہا اس طرح معرض وجود میں آنے والی تحریر سارے کی ساری شیطان کے اثر سے پاک رھتی ھے- کہنے لگے: اور وقت؟ میںنے کہا:جب نماز پڑھ رھا ھوتا ھوں- کہنے لگے: ایسے تو نماز نہیں ھوتی!میں نے کہا پتا نہیں نماز ھوتی ھے یا نہیں-ہاں! تحریر ھو جاتی ہے اور کافی بہتر ہو جاتی ھے-

اب میں نے پوچھا: آپ کس جگہ اور کس وقت کو سوچنے کے لئے استعمال کرتے ہیں؟ کہنے لگے: میں جب قضائے حاجت کے لئے جاتا ہوں تو وہاں تحریر کے حوالے سے باتیں سوچتا ھوں- میں مسکراتے ھوئے انہیں کہا کہ تحریر پڑھتے ھی قاری تحریر کی جائے پیدائش کا پتا لگا لیتا ھے- جس ماحول میں آپ تحریر تخلیق کرتے ھیں وہ ماحول آپ کی تحریر کے بین السطور اپنا آپ ظاھر کر ھی دیتا ھے خواہ کوئی کتنا ملمع کاری کر لے-بس کیا تھا نماز میں سوچنے پر بے دین کے فتوے لگاتے،اول فول فرماتے وہ صاحب یہ جا وہ جا-