ایمان اتحاد تنظیم

جب کبھی کوئ الفاظ کا یہ مرقع اپنی زبان پر لاتا ہے تو ہمیں فورأ قائد اعظم یاد آجاتے ہیں .. جنہوں نے زندگی بھر ہمیں ان تین باتوں کی نصیحت کی... لیکن ہم نے نہ زندگی میں ان کی بات پہ کان دھرے اور نہ مرنے کے بعد ہی ان کی نصیحت کو پلے باندھنے کی کوشش کی.

ہمارے ہاں ہر قسم کی بے ایمانی پائی جاتی ہے. پاکستان, اسلام, اخلاقیات, جمہوریت, جدیدیت, انصاف.... ہر چیز کا نام لے کر جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی ہمارا شیوہ بن چکی ہے....بازار میں دکاندار, راہ میں ٹرانسپورٹر, سکول میں استاد اور طالب علم دونوں, ہسپتال میں ڈاکٹر, دفتر میں ملازم, کام کرنے والی جگہ پر مزدور, اسمبلی میں پارلیمنٹیرینز, فلاحی مراکز پر رضاکاران, اور مسجد میں مولوی....... سوشل میڈیا پر ہر دوسرا انسان......سب کے سب اپنی اپنی جگہوں پر اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جھوٹ اور بے ایمانی کے اس سمندر میں اپنی اپنی کشتیاں اتارے ہوۓ ہیں. مذہب, اخلاقیات , رسوم و رواج سب اسی فریب اور دھوکہ دہی میں پرو رکھے ہیں. 


ایک پریشان حال افسردہ شخص


ہم کسی ضرورت یا مجبوری کے باعث اس بیماری کا شکار نہیں ہوتے بلکہ شوقیہ طور پر رضاکارانہ اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں. 

دھوکہ اور فریب ہماری زندگی میں اتنا رچ بس گیا ہے کہ ہمیں اب سچ اور جھوٹ کی پہچان کرنی بھی مشکل لگتی ہے...

زرا کسی کا کوئی جھوٹ یا فراڈ پکڑ کے تو دیکھیں .... اگلا شخص کسی شرمندگی یا خفت میں مبتلا نہیں ہو گا. پہلے تو وہ اس مسلمہ جھوٹ کو, دھوکے کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا... جب یہ ممکن نہ رہا تو اس بات کو کسی اور کے سر ڈال کر اعلان لاتعلقی اختیار کر لے گا.... خود بری الذمہ ہو جاۓ گا. ... مجھے میرے ایک دوست کے حوالے سے کسی نے کوئی منفی پہلو کی بات بتائی... میں کنفیوز ہو گیا کہ اس سے پوچھوں یا ناں... جب وہ مجھے ملا تو میں نے اسے کہا کہ میں نے آپ کے بارے میں ایک بات سنی ہے... کہنے لگا وہ کیا؟ میں نے کہا کہ اگر میں نے پوچھا تو ناراض تو نہیں ہو گے.... کہنے لگا اگر نہ پوچھا تو ناراض ہوں گا.... میں نے اسے وہ بات بتائ اس نے انکار کر دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں...پھر اس نے کہا تمہیں کس نے بتایا ... میں نے اسے کہا فلاں شخص نے...... اور وہ دن اور آج کا دن وہ شخص مجھ سے ناراض ہے ....کہہ رہا تھا میں نے تو اسے ویسے ہی کہا تھا اس نے تمہیں شکایت لگا دی..... اب بھلا آپ خود بتائیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کسی کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرو اور آپ خود کو پھر بھی ٹھیک جانو اور جو اس افواہ کی حقیقت جاننے کی کوشش کرے وہ غلط..... یہ بات صرف اس دوست تک محدود نہیں یہ ہمارا اجتماعی رویہ بن چکا ہے...... 

اور افسوس تو یہ ہے کہ احساس زیاں جاتا رہا کے مصداق ہم اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں کر رہے.......