ہر چیز کا ایک توڑ ہوتا ہے ہر ایک آدمی کی مثال کوئی دوسرا ضرور ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں۔ ان کو اپنی پسند کے برابر کوئی اور نہیں لگتا۔


جب ذوالفقار بھٹو نے اپنے اقتدار کی بقا کے لیے فضل الٰہی جیسی ڈمی ڈھونڈی تو ان کے وہم و گمان مین نہ تھا کہ ان جیسا دنیا مین کوئی اور بھی ہو سکتا ہے جو انہی جتنا سادہ ہو لیکن بھلا ہو نواز شریف کا جس نے رفیق تارڑر کی صورت میں ایک بھلے مانس کو صدربنا کر بھٹو والی چال چلی سو تارڑر صاحب تو فضل الٰہی صاحب سے بھی سادہ نکلے۔ وہ تو وزیر اعظم کو ریسیو کرنے ائیر پورٹ کی طرف جانے کے لیے تیار ہوئے تھے لیکن تارڑر صاحب کے کیا کہنے وہ تو نواز شریف کے معزول ہونے کے بعد بھی ان کے پاس جا کر ان سے احکام لیتے رہے ہیں انہوں نے نواز شریف کے کہنے پہ ہی 1999 میں استعفیٰ نہیں دیا ورنہ تو وہ بھی نواز شریف سے وفاداری کرتے ہوئے اسی وقت ایوانِ صدر چھوڑنے کے لیے تیار تھے جب ان کے مہربان کو ایوان وزیر اعظم سے نکالا گیا تھا۔

موجودہ الیکشن کے بعد بھی نواز شریف صاحب نے تارڑر صاحب سے بھی زیادہ "شریف" انسان تلاش کیا جو ممنون حسین کی صورت میں ملا جو کھانے پینے، پہننے اور موجیں اڑانے کے علاوہ کچھ جانتے ہیں نہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک کس صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ان کے پالیسی بیان اور پریس ریلیز تک ایوان وزیر اعظم سے تیار ہو کر آتی ہے۔ ملک ختم ہو رہا ہے لیکن یہ اعلٰ سے اعلیٰ کھانے کھانے اور مہنگے سے مہنگے ملبوس بنانے میں مصروف عمل ہیں۔

نواز شریف اس بار اپنی چوائس سے اس قدر مطمئن تھے کہ 1999 میں بھی نہ ہوئے ہوں گے لیکن آئی سی سی کے نئے صدر ظہیر عباس اور ممنون حسین کی سلیکشن ایک جیسی ہی قرار دی جا سکتیی ہے۔سچ ہے کہ پاکستان کے علاوہ کسی

ملک میں اتنا ٹیلنٹ نہیں کہ ایک وقت میں ایک ممنون حسین دکھا سکیں اور ہمارے ملک مین تو اب دو دو ہو گئے ہیں۔