Image Credit: Google
پشاور سانحہ کسی طور بھی سقوط ِ ڈھاکہ سے کم نہیں ہے۔ یہ ننھے
 لاشے تحریک طالبان پاکستان اور ان کے حواریوں کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ 
ذرا دیکھیے اور خود انصاف فرمائیے کہ کس شریعت کی بات کرتے ہیں یہ بھیڑیئے؟؟؟
کس شریعت میں بچوں کا اس طرح بے رحم قتل عام جائز قرار دیتے ہیں۔
میں بہت پہلے ہی اس بات کا قائل تھا کہ ان خارجیوں کا واحد حل ان کا
خاتمہ ہے نہ کہ مذاکرات وغیرہ۔۔کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں
مانتے ۔۔۔۔ ان خون آ شام بھیڑیوں کو خون چاہیے۔۔۔ صرف اور صرف خون۔۔۔
 ان لوگوں کو کیا یہ علم نہیں کہ جہاد کی بنیادی شرائط مین سے اولین یہ ہے
 کہ کسی بچے کو نہیں مارا جائے گا۔ کسی معصوم کی جان نہیں لی جائے گی۔ 
ہتھیار نہ اٹھانے والے کسی شخص کو گزند نہیں پہنچایا جائے گا۔
ٹی ٹی پی کے حواری اگر انسانیت کے حامل وں گے تو اس بربریت کے بعد ان
 کی حمایت کسی طور بھی نہ کریں گے۔
اتنا بڑا سانحہ ہے جس پر نریندر مودی جیسے متعصب ہندو نے بھی مذمت کی
 اور سوگ کا اعلان کیا۔ دنیا بھر میں ایک سوگ کی سی کیفیت ہے۔ مجھے اس
 مرحلے پر وہ وقت یاد آرہا ہے جب امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں ننھے 
علی اصغر کو اٹھایا اور یزیدی لشکر کے سامنے لے کر گئے اور فرمایا اے
سپاہ شام یہ میری اور تمھاری جنگ ہے اس میں اس ننھے کا کیا قصور؟؟؟ اس
 کے لیے چند گھونٹ پانی دے دو تو یزیدی لشکر کی طرف 
 سے جواب میں ایک تیر آیا جو حضرت علی اصغر کے گلے کو چھید کرتا ہوا پار
 ہو گیا۔اس سانحے میں جتنی ٹی ٹی ُی ملوث ہے اتنے ہی ذمہ دار ہماری  معزز 
عدلیہ ہے۔ اگر گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کو سزائیں ملتی تو اتنی ہمت نہ 
ہوتی ان میں۔۔۔۔۔۔
ہماری بیوروکریسی، کچھ سیاسی اور مذہبی تنظیمیں اور وہ پورا طبقہ جو کسی 
بھی قسم کی سماجی، اخلاقی، مالی سپورٹ فراہم کر رہا تھاوہ بھی اس سارے 
سانحے اور ان جانوں کے ضیاع کا باعث ہیں۔ہ


اللہ پاک ان ننھے پھولوں کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے
 لواحقین کوصبر جمیل اجر عظیم عطا فرمائے۔اور پاکستان کو ان خونی بھیڑیوں 
سے نجات عطا فرمائے۔