Image Credit: Google
میں اور نوائے وقت فیملی میگزین کے فیچر رائٹرسید بدر سعید ایک سنئیر لکھاری اور ایک مشہور روزنامے کے کالم نگار سے ملنے لاہور میں ان کے دفتر گئے۔جب ہم وہاں پہنچے تو وہ سوپ پینے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ہم جیسے ہی ان کے دفتر میں داخل ہوئے،انہوں نے آفس بوائے کو مزید دو پیالے اور چمچ لانے کا حکم دیا۔ ہمارے بیٹھنے، ،حال احوال پوچھنے کے دوران ہی ہمارے سوپ پینے کا سامان تیار ہو چکا تھا۔سوپ کی چسکیاں لگاتے لگاتے بدر سعید کو نہ جانے کیا سوجی کہ ان ساحب سے کہنے لگا: سر! آج کل جناح کے سیکولر یا مذہبی ہونے کے حوالے سے جو صحافیوں کی کالمانہ بحث چل رہی ہے اس میں آپ کیوں نہیں حصہ لے رہے۔وہ کہنے لگے:آج کل میں ایک اور موضوع پر لکھنے کا سوچ رہاہوں۔بدر نے پوچھا:بھلا کس موضوع پر؟؟کہنے لگے: ڈاکٹر طاہر القادری کی ریلی اور سیاست میں دوبارہ آمد کے حوالے سے!! ان کی یہ بات سن کربدر نے معنی خیز نظروں سے میری جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے پیالے میں موجود باقی ماندہ سوپ سے انصاف برتنے میں مشغول ہو گیا۔دو تین منٹسب کاموشی سے سوپ پینے میں لگے رہے۔ بدر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میری طرف کن اکھیوں سے دیکھتا اور پھر معنی خیز انداز میں ہنستے ہوئے پیالے کی طرف متوجہ ہو جاتا۔جب مین اس کی اس حرکت سے تنگ آیا تو میں نے بات بڑھانے کے لیے سوال کیا۔۔۔۔تو آپ کیا کہتے ہیں اس ریلی کے حوالے سے؟؟ کہنے لگے:بھئی! یہ تو طے پے کہ اس ریلی کا مہنگائی سے کوئی تعلق نہیں اور قادری صاحب کا یہ سب کرنے کا مقصد عوام کی توجہ حاصل کرنا ہے اور ایک اور بات یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔اپنی بات انہوں نے ادھوری چھوڑ دی کیونکہ وہ بات کرنے کے دوران فون سے نمبر ملا رہے تھے۔  اور کال مل گئی تھی۔بات کرنے سے ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ تحریک منہاج القرآن کے دفتر سے معلومات لے رہے ہیں۔ اس کے بعد جب انہوں نے کال منقطع کی تو میں یہ انتظار کرنے لگا کہ وہ اپنی ادھوری بات پہلے مکمل کریں لیکن یہ کیا؟ انہوں نے ایک اور کال ملا دی۔ نمبر ملنے پر ان سے کہنے لگے: ہاں جی!کیسے ہیں؟ یار طاہر القادری کی ریلی کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟اس کے پیچھے ان کے کیا مقاصد ہیں؟اس سے جواب لینے کے بعد ایک اور شخص کو کال کی۔ اس سے رابطہ ہونے پر اس سے پوچھا: قادری صاحب کے ساتھ کون کون ہے؟ ان کا لانگ مارچ لیٹ کیوں ہو رہا ہے؟ پھر وہ کال ختم ہوئی تو ایک اور ککال شروع ہو گئی۔ یوں کال پر کال ہوتی رہی، سوال پر سوال پوچھے جاتے رہے، لوگوں سے ان کی رائے لی جاتی رہی، مفروضے گھڑے جاتے رہے اور صاحب کے سامنے موجود صفحے کالے ہتے رہے۔ایک گھنٹے سے اوپر ہو چلا تھا ہمیں وہاں بیٹھے، اب تو سید بدر سعید کے چہرے سے بھی بوریت صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے وہاں سے نکلنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم وہاں سے نکلے تو بائیک پر بیٹھتے ہوئے بدر سعید میری سمت مڑا اور مسکرانے لگا۔ غالباً اس ملاقات کے حوالے سے میرے تاثرات جاننا چاہ رہا تھا اور یہ بھی اندازہ لگانا چاہ رہا تھا کہ میں اس وقت کس جذباتی اور ذہنی کیفیت میں ہوں۔ مین نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور ہنستے ہوئے کہا: اچھا تو یہ صحافی ایسے کالم لکھتے ہیں!!!۔