میڈیا کو ریاست کا پانچواں ستون کہا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ کوئی بھی شخص اس کی اس حیثیت سے لگا سکتا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی کا ایک انقلاب آیا اور الیکٹرونک میڈیا میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی تو ٹی وی چینلز کی بھر مار ہو گئی۔ میڈیا کو آزادی ملی تو میڈیا مادر پدر آزادی کی منزل کی طرف رواں دواں ہو گیا۔ مختلف میڈیا گروپس نے اس میدان میں اپنی مناپلی شروع کر دی۔ اورایک لامتناہی جنگ کا آغاز کر دیا۔میڈیا کی اس دوڑ میں اکثر اوقات یوں لگتا تھا کہ پہلے خبر پانے کے لیے اکثر ٹی وی چینلز سچ اور جھوٹ کی تفریق کیے بغیر بریکنگ نیوز نشر کرنے کے چکروں میں ہوتے ہیں۔ روپے پیسے اور نمبر ون بننے کی اس دوڑ میں وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کونسی چیز ملک کے مفاد میں ہے اور کونسی نہیں۔ جیونیوز پاکستان میں نجی میڈیا چینلز کا سرخیل سمجھا جاتا تھا۔اسی لیے وہ اپنی اس سرداری کو قائم رکھنے کے لیے مختلف سرگرمیوں میں مشغول رہتا تھا ۔اجمل قصاب کا معاملہ ہو یا نیٹو سپلائی کا ایشو، مسئلہ کشمیر ہو یا پانی کا مسئلہ،دہشتگردی کا معاملہ ہو یا کوئی اور ایشو۔۔۔ جیو نیوز نے ہمیشہ ریاست مخالف مو ¿قف اپنایا۔ ملک دشمنی، دین سے بیزاری کا تو یوں لگتا تھا جیسے اس نے ٹھیکہ اٹھا لیا ہو۔ منافقت کی یہ حالت کہ ایک طرف انڈیا سے پیسے لے کر امن کی آشا کا ڈھکوسلا چلایا جاتا اور انڈیا کی زیادتیوں پر بھی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے رکھنے کے مشورے دیے جاتے تو دوسری طرف وہی امن کے ٹھیکے دار کرکٹ، ہاکی اور دوسرے کھیل کے مقابلوں پہ سارا سارا دن بلکہ ہفتہ بھر اس طرح ٹاک شوز کرتے جیسے جنگ جاری ہو ۔ ان کی ان حرکتوں سے عوام کے اندر انڈیا سے نفرت پیدا ہوتی تو دوسری طرف امن کے نام پہ پیسے بٹورنے کا عمل بھی جاری ہتا۔ بی ایل اے کی کاروائیاں ہوں یا را کے ایجنٹوں کی ملک میں تخریب کاریاں ہوں ، طالبان کی دہشتگردی ہو یا امریکہ کے سنگین الزامات۔۔۔ جیو کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان دشمن طاقتوں کو نہ صرف سپورٹ کرے بلکہ ان کا دفاع بھی کرے۔میڈیا کا کام تو عوام کو اور ذمہ داران ِ حکومت کو معلومات فراہم کرنا ہیں لیکن جیونیوز توغرور میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ اس نے پاکستان کے سلامتی اداروں پر تنقید شرع کر دی۔ بات یہی تک رہتی تو شاید کچھ نہ ہوتا لیکن حامد میر پر حملے کے بعد بنا کسی ثبوت کے آئی ایس آئی کے چیف کو مسلسل آٹھ گھنٹے تک موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا۔ اس پر عوام کے اندر ان کے خلاف جو نفرت تھی وہ ابھر کر سامنے آئی۔ اسی عرصے میں اہل بیت کی شان میں گستاخی کی گئی جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ کچھ دن جیو پر ہی پہلے تحریف قرآن کا بھی ایک واقعہ پیش آیا۔پاکستانی عوام غصے سے بپھر گئی۔ جیو کے خلاف جلسے ، جلوس اور احتجاج ہونے لگے۔ کیبل آپریٹرز نے جیو کی نشریات روک لی۔ مخلتف جگہوں پر جیو کے رپورٹرز دھمکیاں دیتے، لوگوں سے بدتمیزی کرتے دکھائی دینے لگے۔ رہی سہی کسر پیمرا نے جیو پر پابندی لگا کر پوری کر دی۔ لیکن پیسے کی طاقت اور اپنے مفادات میں جکڑے جانے کے باعث پیمرا کے سرکاری ممبران نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور بعد ازاں اسے غیر قانونی قرار دیا۔
اس عرصے میں یوں تو کئی عجیب و غریب باتیں سامنے آئیں ۔حکمران جماعت کے لوگ جیو نیوز کے ترجمان بن گئے۔ سوشل میڈیا پر ن لیگ کے کارکنان اور آفیشل پیجز جیونیوز کی حمایت میں کمر باندھ کر اتر پڑے۔ اور ان کی پروموشن کرتے نظر آنے لگے۔ ان کے اس اقدام سے کئی سوالات نے جنم لیا۔ اس کارِ خیر میں ان کا ساتھ جماعت اسلامی اور جمیعت کے سوشل میڈیا ونگ نے بخوبی دیا۔مجھے ن لیگ سے زیادہ جماعت اسلامی کی سوشل میڈیا ٹیم پر حیرت ہے کہ وہ کس اسلامی تنظیم کے ترجمان ہوئے جو اہل بیت کی شان میں گستاخی کرنے کے بدلے میں جیو نیوز کے ساتھ ہونے والے سارے واقعے میں جیونیوز کو مظلوم قرار دے کر اس کی حمایت کر رہے ہیں یہی جماعت اسلامی فیس بک اور یوٹیوب پر گستاخانہ خاکے شائع ہونے پر ان کو بلاک کروانے میں پیش پیش تھی۔یوٹیوب بند تو ہو گئی لیکن سب سے زیادہ اگر پراکسیز سے یو ٹیوب چلاتے ہیں تو وہ یہی لوگ ہیں۔شاید یہ دونوں تنظیمیں جیو اور جنگ گروپ سے اپنے مفادات وابستہ کر بیٹھے ہیں ۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ پیسے میں بہت طاقت ہے اور شاید پیسے کی یہی طاقت غالب آگئی ہے۔ کوئی اصغر خان پھر اٹھے اور ان کو بے نقاب کرے۔۔۔۔۔
Image Credit: Google