Image Credit: Google
بس کیا بتا ئیں جی! 
صبح سے سوچ رہا ہوں کہ آپ سے کیا کہوں؟ 
یوں تو کہا جاتا ہے کہ اردو بہت وسیع زبان ہے لیکن آج مجھے اس بات پر شک ہو گیا ہے۔ کبھی ایک محاورہ ذہن میں آتا تو کبھی دوسرا لیکن کوئی بھی ایسا نہ مل سکا جو میرے جذبات کی حقیقی ترجمانی کر سکتا ہو۔ 
کہتے ہیں کہ زبان سے نکلا ہوا تیر۔۔۔۔۔ معاف کیجئیے گا، زبان سے نکلی ہوئی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہیں آتا لیکن کیا کروں یہ محاورہ بھی میری بات کا ترجمان نہیں کہ میں نے جو اقدام اٹھایا تھا اس سے رجوع کرنے کا اختیا ر تو میرے پاس ہے۔
پھر خیال آیا کہ "نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی" والا محاورہ کام آجائے لیکن یہاں تو امکانات اور مستقبل کی باتیں ہو رہی ہیں 
اس لیے اہل زبان سے معذرت کے ساتھ میں نے اس محاورے کو تھوڑا سا تبدیل کیا ہے تاکہ کچھ مفہوم اداکر پائے کہ نہ نومن تیل ہوتا نہ رادھا ناچتی۔ 
بات کچھ طویل ہو گئی اب بر سے مطلب آنا چاہیے۔ تو قصہ کچھ یوں ہے کہ پچھلے دنوں خیالی پلاؤکی جو دیگ دربار سے گم ہو گئی تھی اور جس کے فراق میں میں نے ایک مضمون لکھ ڈالا تھا۔ وہ آج مجھے مل گئی۔ 
دو تین دن کے بعد آج جب میں دفتر گیا تو لائبریرین نے مجھے دیکھتے ہی کہا: بخاری صاحب اتنے پلاؤ پکایا کرو جتنے سنبھال سکو یعنی کھا سکو؟ 
میں نے کہا کیا مطلب؟ کہنے لگا آپ کے پلاؤ کی ایک دیگ یہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے اس دن آپ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب آپ ہی بتائیے کہ میں یہ خبر کیسے سناتا۔۔۔۔!! خیر رادھا کو ناچنے کی سزا تو ملنی چاہیے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟؟